ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / عالمی خبریں / ایران:سعودی سفارت خانے پر حملے کے ملزمان کو برائے نام سزائیں ;فرضی اور نمائشی ٹرائل میں ملزمان کو بچانے کی کوشش کی گئی

ایران:سعودی سفارت خانے پر حملے کے ملزمان کو برائے نام سزائیں ;فرضی اور نمائشی ٹرائل میں ملزمان کو بچانے کی کوشش کی گئی

Mon, 31 Jul 2017 18:38:20  SO Admin   S.O. News Service

تہران،31جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)گذشتہ برس ایران کے دارالحکومت تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر چڑھائی کرنے اور سفارت خانے کی عمارت کو آگ لگانے میں ملوث 10تخریب کار عناصر کو نمائشی ٹرائل میں تین سے چھ ماہ قید کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایرانی عدالتوں کی طرف سے سعودی سفارت خانے پرحملے میں ملوث ملزما کے ٹرائل کو غیر شفاف اور دھوکہ دہی پرمبنی قرار دیا ہے۔ملزمان کے وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایرانی عدالتوں سے ملزمان کے خلاف حقیقی بنیادوں پر مقدمہ لڑا ہی نہیں کیا گیا۔ عدالتوں کی طرف سے ملزمان کا محض نمائشی ٹرائل کیا گیا تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔
ملزمان کے ایک وکیل مصطفیٰ شعبانی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے میں 19ملزمان نامزد تھے مگر ان میں سے صرف 10کو نمائشی ٹرائل کے بعد معمولی سزائیں دی گئی ہیں۔ سزائیں پانے والوں میں چار مذہبی رہ نما بھی شامل ہیں۔اگرچہ ایرانی صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کیسفارت خانے اور قونصل خانے پرحملے میں ملوث ملزمان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا مگر تمام ملزمان کے خلاف مقدمہ کی کارروائی بند کمرے میں ہوئی۔ایرانی عدالتوں کی طرف سے تسلیم کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملوں کے شبے میں دسیوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا مگر ان میں سے بیشتر کو رہا کردیا گیا۔
مقدمہ میں ملزمان کی طرف سے پیش ہونے والے بعض وکلاء نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کی انقلاب عدالت نے ٹھوس شواہد نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہوئے مقدمات پراسیکیوٹر کو واپس لوٹا دیے تھے جس کے بعد تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر نمائش کے لیے کئی ماہ تک ایرانی عدالت میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملوں میں ملوث افراد کے ٹرائل کا سرکس لگایا گیا۔ ملزمان کو عدالت میں بھی پیش کیا جاتا رہا مگر ججوں کے طرز عمل سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ایرانی میڈیا نے ہفتے کے روز محمد نریمانی نامی ایک وکیل کا بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملے کے کیس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک حصے میں کار سرکار میں مداخلت اور دوسرا سفارت خانے میں توڑ پھوڑ قرار دیا گیا۔ مدعی کی عدم موجودگی کے باعث عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ سفارت خانے میں توڑ پھوڑ کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
خیال رہے کہ ایران کی ایک عدالت نے 2نومبر کو جاری کرد فیصلے میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے اور عمارت کو آگ لگانے میں ملوث تمام 45ملزمان کو باعزت بری کر دیا تھا۔ایران کے سرکاری ذرایع ابلاغ نے تسلیم کیا ہے کہ سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملہ کرنے والے بلوائیوں میں 20ملزمان پاسداران انقلاب اوربیسج فورس کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں شام میں بشارالاسد کے دفاع میں لڑتے بھی رہے ہیں۔ ان ملزمان کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں سفارت خانے کی طرف بڑھنے سے منع نہیں کیا۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تہران میں سعودی سفارت خانے پر یلغار باقاعدہ منصوبے کے تحت کی گئی تھی۔
ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کی نیوز ایجنسی ہرانا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایرانی عدلیہ انصاف کے بجائے ظلم بانٹ رہی ہے۔ عدالتیں ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں دہرے معیار پرعمل پیرا ہیں۔ بنیادی شہری حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرنے والے شہریوں کو سنگین سزائیں دی جاتی ہیں مگر اس کے برعکس سعودی عرب کے سفارت خانے اور مشہد میں قائم قونصل خانے پر یلغار کرنے والے تخریب کاروں کے آزادانہ ٹرائل کے بجائے انہیں بچانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ایرانی عدلیہ دوہرے معیار کا شکار ہے۔
ایرانی شدت پسند مذہبی لیڈر حسن کرد میھن کو دو جنوری 2016ء کو تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملوں کا منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔حسن کرد میھن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے معاملے پر ایران میں صدارتی انتخابات سیقبل امیدواروں کے درمیان بحث بھی ہوتی رہی ہے۔ نائب صدر اسحاق جہاں گیری نے انکشاف کیا تھا کہ حسین میھن تہران کیسابق میئر اور سابق صدارتی امیدوار جنرل ریٹائرڈ محمد باقر قالیباف کی انتخابی مہم چلاتا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملے کے بعد ایران کی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صرف سعودی عرب سے آنے والے 7لاکھ سیاح اور شیعہ زائرین کی ایران آمد ورفت تعطل کا شکار ہے۔
ایران کے جنوب مغربی شہر کرج میں قائم انصار حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے حسن کرد میھن کا شمار سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مقربین میں ہوتا ہے۔ سنہ 1998ء کی طلباء تحریک اور 2009ء میں صدارتی انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے تحت اٹھنے والی تحریک کچلنے میں میھن نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اس کے علاوہ سنہ 2013ء میں صدارتی انتخابات میں نامزد امیدوار محمد باقر قالیباف کی انتخابی مہم چلانے میں بھی اس کا کلیدی کردار ہے۔ میھن نور معرفت سمیت 9ادارے چلا رہا ہے جو ایرانی رجیم کو مالی اور لاجسٹک امداد مہیا کرتے ہیں۔ اس کے گروپ میں سابق صدارتی امیدوار اور تہران کیمیئر باقر قالیباف بھی شامل ہیں۔حسن میھن شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں پاسداران انقلاب کی طرف سے جنگ میں بھی شریک ہوچکا ہے۔ میھن جوڈو کراٹے کا ماہر ہے اور ایرانی نوجوانوں کو اس کی کوچنگ بھی کرتا ہے۔
اگست 2016ء کو حسن کرد میھن نے ایرانی صدر حسن روحانی کے نام ایک کھلا خط شائع کیا جس میں اس نے سعودی سفارت خانے پرحملے کے کیس میں ٹال مٹول سے کام لینے کا الزام عاید کیا۔مسٹر میھن نے کہا کہ سعودی سفارت خانے پرحملے میں ملوث عناصر میں پاسداران انقلاب اور بیسج فورس کے حزب اللہ انقلابی گروپ کے افراد ملوث ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ سعودی سفارت خانے پرحملے کو روکنا حکومت کے اختیار میں تھا۔ اگر پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے تحفظ فراہم کرتے تو سعودی سفارت خانے پر یلغار ممکن نہیں تھی۔انصاف نیوز ویب سائیٹ کے مطابق کرد میھن نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کو ٹیلیگرام کی مدد سے سعودی سفارت خانے کی طرف بڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ خود ان میں شامل نہیں تھا بلکہ شام میں تھا۔
 


Share: